Sunday, May 3, 2020

میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ تے سیف الملوک

نام اور نسب

والد کا نام میاں شمس الدین اور دادا کا نام میاں جیون تھا۔ آپ کے بڑے ضلع گجرات کے تھے۔ اور پسوال گجر تھے۔ انکا تعلق حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔

پیدائش

1830ء کھڑی شریف- میر پور آزاد کشمیر

تعلیم و تربیت

صاحبزادہ عبدالحکیم نے آپکو دیکھ کر آپکی ماں کو بولا۔ کہ یہ عام بچہ نہیں ہے۔ تو سموال شریف میں حافظ محمد علی کے مدرسہ میں آپکی تعلیم و تربیت ہوئی۔

بیعت تے منصب سجادگی

باطنی بیعت استخارہ- حضرت عبداللہ شاہ غازی

ظاہری بیعت بحکم حضرت عبداللہ شاہ غازی- سائیں غلام محمد کلروڑی

بہاول بخش کی وفات کے بعد خود سجادہ نشین بنے۔

وفات

87 برس- 31 جنوری 1907 ء 7 ذوالحجة۔ 1324 ھ فالج کے حملے سے وفات ہوئی۔ کھڑی شریف میں ہی دفن ہیں۔ ہر سال حج کے مہینہ میں عرس ہوتا ہے۔

تصانیف

سی حرفی- کل آٹھ صفحے۔ باراں ماہ، سوہنی مہیوال، مرزا صاحبہ، قصہ سسی پنوں، ہدائیت مسلمین۔ (ردِ وہابیت کے لئے لکھی)

سیف الملوک سفر العشق

1279 hijri ، 1863 میں مکمل کی۔

اپنے اندر کا فقر اور درویشی کا باہر لایا۔

سچی نیت اور پکا ارادہ باطل قوتوں کو مات دے دیتا ہے اور منزل پا لیتا ہے۔

بقول اسلم رانا- ممکن ہے کہ کشمیر کی تحریکوں کو علامتی رنگ دیا۔ اور آزادی کا ہیرو شہزادہ اور بدیع الجمال کو منزل ثابت کیا۔ عشقیہ میں مجازی رنگ میں حقیقت سے ہردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔

مثنوی کے آغاز میں لکھتے۔ “پڑھ نال یقینے ٹر دے ونج سجن نوں ملدے”۔

سیف الملوک تاریخ آئینے میں۔

یہ الف لیلی کی ہزار داستانوں میں سے ایک ہے۔ اور اصل داستان عربی میں ہے۔ اسکا آزاد کشمیر میں وہ مقام ہے جو ہیر وارث شاہ کو پنجاب میں ہے۔

سیف الملوک کے کردار

سیف الملوک، بدیع الجمال، صاعد، ملکہ خاتون، بدرہ خاتون، شاہ پال، ہاشم شاہ، اسفند باش دیو،

سیف الملوک کی کہانی۔

اسکا نام سفرالعشق ہے۔ایک عاشق کے سفر کی داستان ہے۔کہ وہ مصیبتوں کے باوجود اپنی منزل اپنے عشق کو پا لیتا ہے۔

ملک مصر کابادشاہ عاصم بے اولاد تھا۔نجومیوں کے کہنے پر اس نے ملک بدخشاں کی شہزادی اور اسکے وزیر صالح بن حمید نے شہزادی کی سہیلی سے شادی کی۔ دونوں کے گھر بیٹے پیداہوۓ۔ بادشاہ نے بیٹے کا نام سیف الملوک اور وزیر نے صاعد رکھا۔

جب سیف الملوک جوان ہوتا ہے۔ تو انکو اپنے والد سے دو مورتیاں ملتی ہیں۔ شہزادہ بدیع الجمالل پری کی مورتی کو دیکھ کر ہوش بھلا دیتا ہے۔ عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔اور باپ سے اجازت لیکر سری لنکا کیطرف ایک بڑا بیڑہ لیکر نکلتا ہے۔ صاعد بھی ساتھ ہوتا ہے آٹھ ماہ میں وہ استنبول اور اگلے چھ ماہ میں وہ بلاؤں کے جزیرے پر پہنچتا ہے۔19 دن کے طوفان کے بعد بس 70 لوگ زندہ بچتے ہیں۔ وہاں سے وہ کوقاف جاتا ہے۔ پھر 70 دن کے پیدل سفر کے بعد بے ہوش ہو جاتا ہے۔تو حورائیل فرشتہ آکر اسے اسم اعظم سکھاتا ہے جس کی مدد سے وہ دیو کے قلعے میں پہنچتا ہے۔ جہاں دیو نے ملکہ خاتون کو قید کر رکھا ہوتا ہے۔ ملکہ خاتون پری بدیع الجمال کی سہیلی ہوتی۔ وہ اسے اپنی کہانی سناتا۔ تو ملکہ اسے بتاتی وہ پری کی سہیلی ہے۔ اور اسے پری سے ملا دیتی ہے۔ مگردیو کے بھائی اپنے بھائی کے قاتل- شہزادے کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اور اسے پکڑ کے لے جاتے ہیں۔ پھر دیو اور ہاشم شاہ(شہزادے کے باپ) کی جنگ ہوتی۔ ہاشم شاہ کو شکست دیتا۔ پھر دونوں کی شادی ہوتی۔ اور واپسی ہر شہزادہ تخت سنبھال لیتا ہے۔صا عد کی شادی ملکہ خاتون کی چھوٹی بہن بدرہ سے ہوتی ہے۔ پانچ سال بعد شہزادہ فوت ہو جاتا۔شہزادی بھی اس غم میں اپنی جان دے دیتی ہے۔

میاں محمد بخش کی شاعری

فکر اور فن کا بہترین نمونہ ہے۔ حال اور قال کا حسین امتزاج ہے۔زبان اور بیان کا شاہکار ہے۔ اخلاقیات کا دریا ہے۔

میاں صاحب کا تصوف

میاں صاحب قادری بزرگ تھے۔آپ کا تصوف سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ والا ہے۔

حمد

نعت

وحدت الوجود

آپ بھی دوسری قادری بزرگوں کیطرح وحدت الوجود کے قائل تھے۔

تصوف اور ریاضت

آپکا تصوف عملی ہے۔ اسی بنا ہر آپنے کہا۔

عشق

آپ بھی حقیقی عشق کے قائل تھے۔ آپکے نزدیک عشق ہی اشرف المخلوق ہونے کا ثبوت ہے۔

آپ نے عشق کو چار منازل میں بتایا۔

پہلی منزل– پہلی منزل وہ جس پر پہنچ کر عاشق خود سے بے نیاز ہو جاۓ۔

دوسری منزل- یہ توحید کی ہے۔ جہاں دوئی ختم ہو جاتی ہے۔

تیسری منزل-حیرت کی منزل ہے۔ جہاں پہنچ کر میاں صاحب کافر مسلمان کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ز

چوتھی منزل- فقر اور فنایت کی ہے۔ اسکی یہی ترتیب و ترکیب ہے۔

مرشد راہ ہدایت۔

تصوف میں مرشد کی حیثیت فنا فی الذات سے فنا فی اللہ تک کشتی کے ملاح کی سی ہے۔ ملاح کے بغیر انسان صرف کشتی سے دریا پار نہیں جا سکتا۔

تو حیدی منزل

مرشد ہی سالک کو ظاہر اور باطن صاف کر کے رب کا اصلی روپ دکھاتا ہے۔

مقام فنا فی اللہ

جہاں توحید کی بات کی۔ وہاں فنا فی اللہ کی بات بھی کی۔

ولی اللہ کی شان

رب کے سچے عاشق اور حضور کے حقیقی با عمل امتی نبی کی شریعت کے راستے پر چل کر توحید کی معرفے سے آگاہ ہو کر اللہ کی وادی میں شیروں کی مانند چلتے ہیں۔

اخلاقیات

آپ میاں صاحب کے اخلاق کے بارے میں خیالات کا انکی اس لائن سے اندازہ لگا لیں۔

دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا۔

مکدی گل

اخلاق عاطف- سیف الملوک کے اثر نے اسلامی فلسفے اور پنجابی ادب میں میاں محمد بخش کو مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

Hazrat Mian Muhammad Bux RA | Saiful Malook | Punjabi | PMS

Open link for written answer. https://theresearchidea.wordpress.com/2020/04/19/میاں-محمد-بخش-رحمتہ-اللہ-علیہ-تے-سیف-الم/

No comments:

Post a Comment

Please feed back us. Your feed back helps us to improve the quality of work. Thank you!