Sunday, May 3, 2020

ہیر وارث شاہ

پنجابی زبان دی بائبل (انجیل)
وارث شاہ کی زندگی پر ایک نظر
آپ پنجابی زبان کے عظیم شاعر تھے۔آپ کو پنجاب کا قومی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔آپ کے تحریری کام کو پنجابی میں قرآن بھی کہا جاتا ہے۔
تعلیم و تربیت
سید وارث شاہ جنڈیالہ شیر خان ضلع شیخوپورہ میں سید گل شیر شاہ رحمتہ اللہ کے گھر 1722ء میں تہجد کے وقت پیدا ہوئے۔ آپکے بزرگ دسویں امام حضرت علی نقی علیہ سلام کے صاحبزادے میں سے ہیں۔ آپ نے 12 سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔
قصور کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضی قصوری سے قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر اور منطق کے علوم سیکھے۔ آپ کو سندھی، بلوچی، پشتو اود سنسکرت زبانوں پر عبور تھا۔
روحانی تربیت
حضرت بابا گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر حاضری دی اور گدی نشین خواجہ دیوان محمد رحمت اللہ علیہ کے بیعت ہوئے۔ روحانی فیض کے بعد ساہیوال کی ایک مسجد میں امامت کی۔ایک بھاگ بھری نامی عورت سے لگاؤ ہو گیا جو کہ نیک خاتون تھیں۔ تو بدنامی کے ڈر سے آپ وہاں سے پاک پتن شریف کے نزدیک ملکہ ہانس آگۓ۔ وہاں آپ نے 1180ء میں آپ کا شاہکار ہیر رانجھا مکمل کیا۔
جب بابا بلھے شاہ نے یہ کلام لکھ کر اپنے استاد محترم کو پیش کیا تو انہوں نے برا بھلا کہا کہ میں نے تمہیں حقیقی عشق پڑھایا تھا اور تم مجازی عشق لکھنے چل پڑے ہو۔
بعض جگہ آیا ہے کہ بھاگ بھری آپکی معشوق نہیں بلکہ ایک نیک بخت عورت تھیں۔
پھر واپس شیر جنڈالہ آکر ہیر میں مزید 16 فکرے شامل کر کے دوبارہ پیش کیا۔ تو استاد محترم نے بولا کہ تم نے منج کی رسی میں موتی پرو دیے ہیں۔
وفات
آپ 1798ء میں جنڈیالہ شیر خان میں فوت ہوۓ اور وہیں دفن ہیں۔ حکومت پنجاب نے آپ کا عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا اور ہر سال آپکے مزار ہر ہیر پڑھنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔
ہیر کی حقیقت
بقول بلال زبیری- ہیر کا اصل نام عزت بی بی تھا۔وہ 830ہجری میں حضرت شاہ مخدوم کبیر رحمتہ اللہ علیہ کی دعا سے جھنگ کے ایک زمیندار کے گھر پیدا ہوئیں۔ انہوں نے مخدوم صاحب کے خلیفہ خواجہ عبداللہ رح سے 10 سال میں قرآن حفظ کیا۔ پھر عبادت میں مصروف ہو گئیں۔ کچھ عرصہ بعد مخدوم صاحب گھر آئے تو بشارت دی کہ ” آپکی بیٹی کا درجہ اللہ کے نزدیک بلند ہے۔اور وہ اولیاء کی صف میں ہے۔ اور وہ ہیر کے نام سے شہرت پائیگی۔”
عزت بی بی کے عاشق حقیقی کا نام مراد بخش قوم رانجھا تھا۔یہ بہلول لودھی کا زمانہ تھا۔
قصہ ہیر رانجھا
تخت ہزارہ کے ایک گاؤں کے چودھری موجو کے آٹھ بیٹے تھے۔ اور دو بیٹیاں تھیں۔موجو کی وفات اسکا سب سے چھوٹا بیٹا رانجھا اپنے بھائیوں اور بھابھیوں کے طعنوں(جاہ ہیر سیال ویاہ لیاویں) سے تنگ آکر بانسری ہاتھ میں لے کر گھر سے نکل جاتا ہے۔راستے میں دریا پار کرنے کے لئے لڈن ملاح کی بیوی کو بانسری سناتا ہے۔ دریا پار جا کر باغ میں ایک بستر پر جا کر سو جاتا ہے۔ جو کہ ہیر کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ساٹھ سہیلیوں کے ساتھ آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ کوئی اجنبی سویا ہوا ہے۔ اور اسے جگاتی ہے۔ وہ اسے دیکھتے ہی مرض عشق بن جاتی ہے۔ اسے ساتھ لے آتی ہے۔ اور اسے گاۓ بھینسوں کے رکھوالے کے طور پر ملازم رکھوا دیتی ہے۔ اس کو روزانہ دیسی گھی کی چوری بنا کے کھلاتی ہے ۔دونوں کا عشق عروج پر ہوتا کہ چاچا کیدو (لنگڑا) کو انکا پتہ چل جاتا اور وہ انکا بھانڈا پھوڑ دیتا۔ ماں باپ اسی بنا پر زبردستی ہیر کی شادی رنگ پور کےکھیڑوں میں کر دیتے ہیں۔ رانجھا ہجر میں پاگل ہو جاتا ہے۔ رانجھا ہیر تک پہنچنے کے لئے جو گیوں کا کام سیکھتا ہے اور پھر فقیر کے روہ میں ہیر کے پنڈ جاتا ہے۔ ہیر کے گھر کے دروازے پر خیرات مانگنے کے لئے جاتا تو خوش قسمتی سے ہیر ہی دروازے پر آتی۔ پر اسکی نند سہتی انکو باتیں کرتا دیکھ لیتی۔ اور ہیر کو برا بھلا کہتی۔ ہیر سہتی کو اس کے عاشق مراد بلوچ کے ساتھ ملانے کی لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیتی ہے۔ ہیر کپاس چننے جاتی اور سانپ ڈسنے کا بہانہ بنا لیتی۔ اور رانجھے کو گھر بلوا لیتی۔ رانجھا بولتا کہ اسکے علاج کو زہر نکالنے میں رات بھر لگ جائیگی۔ وہ الگ کمرے میں انکو الگ کمرہ دے دیتے اور یہ کمرے کے دروازے بند کر لیتے۔ رات کی تاریکی میں دونوں غائب ہو جاتے۔ گھر والوں کو صبح جا کر پتہ چلتا۔ وہ پیچھے پکڑنے کے لئے نکلتے۔ ہیر اور رانجھا عدالت جا کر بتاتے کہ انکا نکاح ہوا ہے اور فلاں قاری صاحب نے پڑھایا ہے۔ عدالت میں عدلی راجہ ان دونوں کے حق میں فیصلہ دے دیتا۔ ہیر ماں باپ کے پاس اس وعدے پر چلی جاتی کہ رانجھا باقاعدہ طریقے سے بیاہنے آئے اور ڈولی لے کر چلا جاۓ۔ ہیر کے گھر والے اسے رات کو زہر دے دیتے۔ رانجھے کو پتہ چلتا وہ بھی مر جاتا۔
وارث شاہ اور انکی ہیر
بقول ڈاکٹر ہرنام سنگھ- ہیر وارث شاہ پنجابیوں کی سب سے لاڈلی کتاب ہے۔صدیوں بعد بھی اتنی ہی عزیز ہے۔دونوں پنجاب کے ریڈیو، TV پروگرام، ڈراموں، فلموں، گانوں غرض ہر جگہ نظر آتی ہے۔
مقبولیت کے اسباب
عوامی رنگ، معاشرتی عکاس، رومانوی رنگ، علاقائی رنگ، دکھ، درد، تصوف، اور ہیر پر اختلافی بحث کیوجہ سے شہرت ملی۔
علامتی روپ
ہیر وارث شاہ کے سارے کردار علامتی ہیں۔ہیر گھر بار، بانسری بول چال کا طریقہ، رانجھا جسم، سہتی موت، بھابھی شہوت، ترنجن بد عملیاں، مسجد ماں کا پیٹ، عدلی راجہ نیک عمل وغیرہ کے لئی استعمال کیا گیا ہے۔
تصوف

عشق کا تصور

مرشد لئی اظہار

دنیا کی بے ثباتی

اخلاقیات

مذہب سے پیار

وارث شاہ کی اپنی شاعری کے بارے میں راۓ۔
انہیں اپنی شاعری پر بہت مان تھا۔

غیروں نے خراج عقیدت پیش کی۔
Varis shah paints a truthful picture of the punjabi people and local scenery. Actual contemporary life is the fount from which he derived his asthetic imagery and devices.
 Serebrakor Punjabi literature 1- P53
مکدی گل۔
بقول ڈاکٹر اسلم رانا- وارث شاہ سخن کے میدان کا وہ عظیم شاہسوار ہے۔ جس نے خیالات کو لگام دے کر انکو اپنی مرضی کی فکری اور فنی منزل پر چلایا ہے۔یہاں سے انکی تخلیقی قوت اور علمی بڑائی کا پتہ چلتا ہے۔

Qissa Heer Waris Shah, Baba Waris Shah, Sufi Poet, CSS, PMS, Punjabi

For written stuff go below. https://theresearchidea.wordpress.com/2020/04/27/ہیر-وارث-شاہ/

No comments:

Post a Comment

Please feed back us. Your feed back helps us to improve the quality of work. Thank you!