تعارف
ملتان کی وار درانی سلطنت کے وزیر اورسکھ سلطنت کے مابین ہوئی تھی ۔یہ افغان سکھ وار کا حصہ تھی۔ یہ درانی سلطنت کے وزیر اور سکھوں کی سلطنت کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ مارچ 1818ء میں شروع جبکہ 2 جون 1818ء میں ختم ہویی تھی۔ یہ قلعہ ملتان پر لڑی گئی۔ اسکو محاصرہ ملتان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس میں سکھوں کو فتح حاصل ہوئی تھی۔
محاصرہ ملتان-پس منظر
درانی وزیر اٹک کی جنگ ہارنے کے بعد درانی وزیر فتح خان نے فارسی حکمران علی شاہ سے جنگ کی۔ جو کہ درانی صوبہ ہیرات پر قبضہ چاہتا تھا۔اسکا ساتھ اسکے بھائی دوست محمد خان اور بددیانت سکھ سردار جۓ سنگھ اتروالیہ نے ساتھ دیا تھا۔جب فتح ہوئی تو وزیر نے اپنے حاکم محمود شاہ کو اتارنے کی کوشش کی۔ دوست محمد خان کے ساتھیوں نے ملکہ کے ہیرے جواہرات چھین لیے۔ کامران درانی جو کہ حاکم کا بیٹا تھا۔ اس نے اس کو جواز بناتے ہوۓ فتح خان کو ہٹا دیا اور اسکو مارا پیٹا اور مار دیا۔ مگر فتح خان نے اپنے 21 بھائی اعلی عہدوں ہر فائز کروائے تھے۔ اس کے بعد اسکے بڑے بھائی اعظم خان جو کہ کشمیر کا گورنر تھا بارکزائی باغیوں اور ہنے درمیان تقسیم کر لیا۔ سکھوں نے ماضی میں ملتان پر بہت بار حملہ کیا تھا۔اور ملتان پر قبضہ کر لیا۔ اور سب سے بڑا حملہ 1810 میں کیا تھا۔ ماضی میں انہیں شکست ہوتی رہی۔ نواب مظفر خان سدوزئی بلوچ سے ملتان آزاد کروانے کے لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی فوجوں کو بھیجا۔ نواب مظفر خان نے انکار کر دیا۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ نواب نے قلعہ میں محصور ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی مشہور توپ زمزمہ اور فوج بھیجی۔مظفر خان اپنے سات بیٹوں سمیت شہید ہو گیا۔
پس منظر
ستمبر، 1844 میں اپنے باپ کی موت کے بعد، دیوان مول راج کو ملتان کا گورنر بنایا گیا تھا۔ 1846 میں انگریزوں کےلاہور دربار پر قبضے کے بعد، لال سنگھ کی سازشوں کے سبب، اس کا معاملہ 25% بڑھا دیا گیا تھا۔ یہ بات 29 اکتوبر، 1846 کی ہمول راج ک عدالتی طاقتیں بھی گھٹا دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ معاملہ نہ دینے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتا تھا۔ بالآخر، تنگ آ کر اس نے دسمبر، 1847 میں استعفٰی دے دی.ریڈرک کری لاہور میں نیا ریزیڈینٹ بن کے آ گیا تھا۔ اس نے کاہن سنگھ مان کو ملتان کا نیا صوبیدار مقرر کر دیا اور وینس ایگنیو کو اس کا سیاسی صلاح کار اور لیفٹینینٹ ایاڈرسن کو اس کا اسسٹینٹ بنا دیا. چارج لینے کے بعد جب کاہن سنگھ اور دونوں انگریز باہر نکل رہے تھے ایک فوجی افسر گودڑ سنگھ مذہبی نے ایاڈرسن اور ایگنیو پر حملہ کر کے ان دونوں کو قتل کر دیا سکھ فوجوں میں انگریزوں کی طرف سے پنجاب پر قبضہ، رانی جنداں کی بے عزتی اور قید، سکھ جرنیلوں اور افسروں کے اختیارات چھیننا، غداروں کو عہدے اور پزیرائی بخشنا جیسی خبریں پہنچتی رہتی تھین اور وہ اندر ہی اندر غصے میں بھرے بیٹھے تھے ۔ دیوان مول راج کی جگہ کاہن سنگھ مان،اور وہ بھی دو دو انگریز افسروں کی نگرانی میں، لایا جانا اس وقتی ایکشن کی وجہ بنا۔
وار
ایڈورڈز نےملتان پر حملہ کر دیا.پہلے تو چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں پر 18 جون، 1848 کو ایک بڑی لڑائی ہوئی جس میں ایڈورڈزکوفتح حاصل ہوئی آخری لڑائی یکم جولائی کے دن ہوئی جس میں دیوان مول راج کا ہاتھی مارا گیااوراس کے ساتھ ہی اس کی موت کی افواہ بھی پھیل گئی۔ اس کی وجہ سے اس کے ساتھیوں کے حوصلے پست ہوگئےس نے اپنے آپ کو قلعے میں بند کر لیا۔ انگریزی فوجوں نے قلعے کو ساری اطراف سے گھیر لیا۔ یہ محاصرہ چار ہفتے جاری رہا۔ دیوان مول راج، کابل سے امیر دوست محمد خان دی مدد کی آس بھی رکھ رہا تھا۔ پر نہ تو کابل سےاورنہ ہی اٹاری والوں سے کوئی مدد پہنچ سکی۔ 17 دسمبر، 1848 کو انگریز فوجوں نے قلعے پر ایک زبردست حملہ کیا اور اندر داخل ہو گئیں۔ آخر کار مول راج نے ہتھیار پھینک دئے۔ دیوان مول راج پرقتل، جنگ کرنے اور غداری کا مقدمہ چلا کے اس کو موت کی سزا سنائی گئی (جو گورنر جنرل نے عمر قید میں بدل دی)۔ جنوری، 1850 تک اسکولاہور قلعہ میں رکھ کے بعد میں فورٹ ولیئمز (کلکتہ) بھیج دیا گیا۔ پر خراب صحتَ کی بنا پر اس کو بنارس لے آیا گیا اور کھانےمیں ہلکی زہر دے کے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔
نتیجہ
دیوان مول راج کے بارے لارڈ ڈلہوزی کا خیال تھا کہ مول راج کے پاس بغاوت کی قیادت کرنے کے واسطے نہ تو ہمت تھی نہ ہی خواہش۔ یہ تو ایڈوارڈیز کی زیادتیاں تھیں جس نے سکھوں کے قومی جذبات اس کے حق میں کر دیے تھے۔